راقم نے اس نابکار کو گھورا۔۔۔۔ اور بزرگ کے قدم چھونے کے لیے آگے بڑھا۔ جذب عقیدت سے سرشار تھی طبیعت ۔ بس یوں سمجھیے کہ "اے تن میرا چشمہ ہووے" والا مصرعہ اسی دن ہی سمجھ آیا۔
اب جو بزرگ سے باہم گفتگو بڑھی۔۔۔ تو انہوں نے اپنے خاندان میں گزرے اک اور بزرگ کی شہ زوری کے واقعات سے پردہ اٹھایا۔۔۔ ذرا انہی بزرگ کی زبانی سنیے۔۔۔
بزرگ اپنے سامنے بیٹھے نوجوانوں کو دیکھا۔۔ اور کہا۔۔۔ کیا جوانیاں تمہاری ہیں۔۔۔ نوجوانوں۔۔ بس ذرا آٹے کی بوری اٹھاتے ہو تو ہانپنے لگتے ہو۔۔۔ یہ پیچھے ڈیرے کی چھت دیکھ رہے ہو۔۔۔ یہ پرانے وقتوں میں بھی چھت ہی تھی۔ اس انکشاف پر اکثر نے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں۔ یوں بھی فوق العادہ انکشافات پر اظہار کو محاورات کی عملی شکل ضروری تھی۔ بزرگ نے کمال سخاوت سے اس حیرانی کو نظر انداز کرتے ہوئے متبسم لہجے میں بات جاری رکھی۔ میں اس وقت جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا۔۔۔ بس روز کی عادت بنی ہوئی تھی۔۔۔ کہ دو بوریاں بغل میں دبا کر سیڑھیاں چڑھ جایا کرتا تھا۔۔۔ اور اترتا تھا۔۔۔ یہ عمل تیس بار دہراتا۔۔۔ پھر جب جسم گرم ہوجاتا تو ڈنڈ پیلا کرتا تھا۔۔۔ اور مزے کی بات دیکھو کہ میں اپنے ساتھیوں میں سب سے کمزور ہوا کرتا تھا۔۔۔ باقی سب میرا مذاق اڑاتے تھے۔۔۔ غضب خدا کا دیکھو کہ وہ لوگ بھی میرا مذاق اڑاتے تھے جنہیں محلے میں کبوتر کوئی نہ اڑانے دیتا تھا۔ خیر۔۔۔ اس دور باکمال میں ہمارے محلے میں اک بزرگ ہوا کرتے تھے۔۔۔ سب ان کو سائیں بابا کہا کرتے تھے۔۔۔ ہائے۔۔۔ کیا بزرگ تھے۔۔۔ اللہ جنت نصیب کرے۔۔۔ بھئی زندگی بھر کوئی شہ زور دیکھا ہے تو وہ ۔۔۔ واہ کیا طاقت دی تھی اللہ نے مرحوم کو۔۔۔۔ گڈا (بیل کے پیچھے جوتنے والا ریڑھا) اٹھا لیا کرتے تھے۔۔۔ قربانی کے دن بیل کو اکیلے ہی پچھاڑ کر ذبح کر دیا کرتے تھے۔۔ گر کوئی ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا۔۔ تو بہت ڈانٹتے۔۔۔ کہتے تم نوجوان لوگ کام خراب کرتے ہو۔۔۔۔ ہم نے جا کر سب سے عید ملنے کے بعد ابھی قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کی تیاری کر رہے ہونا۔۔۔ اور ان کے گھر سے گوشت پہنچ جایا کرتا تھا۔۔۔ واہ واہ۔۔۔ اوئے تم لوگوں نے وہ تو دیکھا ہوا ہے ناں۔۔۔ یہاں سے وہ والا شہر۔۔۔۔ جی جی بالکل۔۔ اک نواجوان فورا بولا۔۔ یہاں سے دو سو کلومیٹر دور ہے۔۔ اس پر بزرگ سرکھجاتے ہوئے بولے۔۔ ہاں بالکل۔۔۔لیکن ہمارے دور میں یہ فاصلے ناپنے کا سلسلہ نہ تھا۔۔۔ بس جہاں تھک جاتے رات کاٹ لیتے تھے۔۔۔ خیر اس سے تھوڑا پہلے اک گاؤں آتا ہے۔۔۔ وہاں جانا تھا۔۔۔ پیدل ہی نکلنے لگے۔۔۔ گھر والوں نے بہت کہا کہ نہیں ،گرمیوں کے دن ہیں۔۔ پیدل نہ جاؤ۔۔ ایسا کرو۔۔۔۔ گڈا لے جاؤ۔۔ پہلے تو نہ مانو۔۔۔ پر جب اصرار بڑھا تو گڈے پر سوار ہو کر نکل گئے۔۔ واپسی پر آدھے سے زیادہ سفر طے کر چکے تھے۔۔۔ کہ گڈے کا اک پہیہ ٹوٹ گیا۔۔۔۔ طبیعت بڑی مکدر ہوئی۔۔۔ بہت سٹپٹائے۔۔ اور گڈا اٹھا کر کاندھے پر رکھا۔۔ ساتھ بیل کو ہانکتے ہوئے لے آئے۔۔۔ کہنے لگے۔۔۔ آئندہ پرائی چیز کا سہارا نہ لوں گا۔۔۔ بھائی اپنے پیروں سے بھلی چیز دنیا میں کوئی نہیں۔۔۔ اس واقعے پر سب نوجوانوں کے منہ حیرت سے کھل گئے۔۔۔ واہ کیا طاقت تھی۔۔۔ اللہ اللہ
(جاری ہے)