آلکسی - اردو ادبیات

Post Top Ad

ہفتہ، 2 نومبر، 2013

آلکسی

سستی اور انسان کا دوستانہ کتنا پرانا ہے۔ اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ بعض سست دانوں کے نزدیک یہ تب سے ہے جب سے انسان وجود میں آیا۔ جبکہ بعض روایات کے مطابق تب سے ہے جب سے انسان نے کھچوا دریافت کیا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پہلے سستی نہ ہوتی تھی۔ اور اگر ہوتی بھی تھی۔ تو اس کا نام کچھ اور تھا۔ تاہم کچھ قدیم کچھوؤں نے اس بات پر اپنے اعتراضات محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ اور بوجہ سستی ریکارڈ کروانے سے قاصر ہیں۔ قدیم زبانوں میں اس کیفیت کو پوستی کیفیت سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ جب کہ کچھ کہ ہاں آلکسی کا لفظ مستعمل ہے۔
جوں جوں انسان نے ترقی کی۔ اس نے آلکس کو بھی ترقی دی۔ آج کے مشینی دور میں سستی اوج کمال پر پہنچی نظر آتی ہے۔ زیادہ نہیں تو تھوڑا پیچھے جا کر دیکھیں۔ جب ٹی وی چینل بدلنے کو بھی لیور گھمانا پڑتا تھا۔ بہت سے لوگ محض اس لیے بھی ایک ہی چینل دیکھتے تھے کہ کون لیور گھمائے۔ لیکن اب وہی کام ایک تیز رفتار ریموٹ سے سست سے سست آدمی بھی سکون سے کر لیتا ہے۔ جوں جوں اس ضمن میں انسان نے ترقی کی ہے۔ سستی کے معیار بھی بلند ہوگئے ہیں۔ اوراب اس منزل پر پہنچنے کے لیے سخت گیان اور تپیسیا کی ضرورت ہے۔ ہر کوئی سست نہیں کہلا سکتا۔ پرانے زمانے میں لوگ خود بتاتے تھے کہ ہم سست ہیں۔ گو کہ یہ دعویٰ کرنے والے تو آج بھی موجود ہیں۔ مگر فی زمانہ سست وہی ہے۔ جس کو اس کے گھر والے اور معاشرہ سست تسلیم کرلیں۔
یہ بات گو کہنے میں بہت آسان نظر آتی ہے کہ ہر آدمی اپنے گھر والوں سے سستی کی سند لے آئے۔ اور اپنے تئیں سست کہلائے۔ لیکن سست بھی بڑے استاد سست ہیں۔ ایک نظر میں بھانپ لیتے ہیں کہ واقعتاؐ سست ہے یا پھر سستی کا سوانگ بھر رکھا ہے۔

Post Top Ad