لمحات وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے - اردو ادبیات

Post Top Ad

ہفتہ، 20 جون، 2009

لمحات وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے

لمحات وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے

وہ ہاتھ بڑھ نہ پائے کہ گھونگھٹ سمٹ گئے

خوشبو تو سانس لینے کو ٹھہری تھی راہ میں

ہم بدگماں ایسے کہ گھر کو پلٹ گئے

ملنا__دوبارہ ملنے کو وعدہ__جُدائیاں

اتنے بہت سے کام اچانک نمٹ گئے

روئی ہوں آج کھُل کے، بڑی مُدتوں کے بعد

بادل جو آسمان پہ چھائے تھے، چھٹ گئے

کِس دھیان سے پرانی کتابیں کھلی تھیں کل

آئی ہوا تو کِتنے ورق ہی اُلٹ گئے

شہرِ وفا میں دُھوپ کا ساتھی کوئی نہیں

سُورج سروں پہ آیا تو سائے بھی گھٹ گئے

اِتنی جسارتیں تو اُسی کو نصیب تھیں

جھونکے ہَوا کے، کیسے گلے سے لپٹ گئے

دستِ ہَوا نے جیسے درانتی سنبھال لی

اب کے سروں کی فصل سے کھلیان پٹ گئے

Post Top Ad